Azam Qamar Developers

رئیل اسٹیٹ ،مالی بجٹ اور ٹیکس میں تاریخی اضافہ 

رئیل اسٹیٹ کاشماران چندبنیادی انڈسٹریزمیں ہوتاہے جوکسی بھی معاشی بجٹ سے براہِ راست متاثر ہوتی ہیں۔پاکستانی معیشت گزشتہ کچھ برسوں میں جس بے یقینی کاشکار رہی ہے ،وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔۔ایسے میں رئیل اسٹیٹ ان گنے چنے شعبوں میں سے ہے جس نے ملکی معیشت کی جیب بڑی فراخدلی سے بھری ہے،لیکن جب موقع آتاہےدوسری طرف سے اس انڈسٹری کوکچھ صلہ ملنے کا، تو صورتحال بجائے امیدافزادکھائی دینے کے اورمنتشرہوجاتی ہے۔۔موجودہ معاشی بجٹ اس کی تازہ مثال ہے، جواپنے جلو میں نہ صرف کئی نئے ٹیکس لے کر آیاہےبلکہ کئی شعبوں میں پہلے سے نافذشدہ ٹیکسوں میں بھی کچھ اوراضافہ کر دیا گیا ہے۔بظاہر اسے نان ٹیکس فائلرزکےگرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کہاجارہاہے( رئیل ایسٹیٹ کے شعبے کے نان ٹیکس فائلرز پر 45 فیصد ٹیکس عائدکیاگیاہے)  لیکن یہ صرف ہیڈ لائن ہے ،اس کے پس منظر میں رئیل اسٹیٹ جس طرح معاشی بجٹ کی زد میں آتی ہے ، وہ صورتحال بھی کم تشویشناک نہیں ہے ۔

وفاقی بجٹ کے اعلان کے بعدصوبہ پنجاب کے صوبائی بجٹ میں رئیل اسٹیٹ پرالگ سے کئی ٹیکس لگائے جانااس کی ایک مثال ہے۔چنانچہ اب 50 لاکھ سے ایک کروڑ روپے مالیت رکھنے والے پلاٹ پر سالانہ سات فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ آگے بڑھیں تو ایک کروڑ سے دو کروڑ روپے مالیت کے پلاٹ پر آٹھ فیصد سالانہ ٹیکس عائد ہوگا۔۔اور ایسے میں عام آدمی کے لیے وہی سوال ایک بار پھر ایک ڈراؤنے خواب کی صورت لے رہاہے کہ وہ ان سب آزمائشوں سے گزرکےاب اپنا گھر کیسے بناپائے گا؟

جہاں ہم آغازپروجیکٹ کی کامیابی ،ڈیویلپمنٹ کے تسلسل اور صارف کے اطمینان پر خوشی کااظہار کرتے ہیں ،  وہیں ہم باقی ماندہ صنعتی منظر نامے سے بھی نظر نہیں چرا سکتے ۔۔رئیل اسٹیٹ کی صنعت سے وابستہ افراد جس جانفشانی سے اپنے صارفین کے دیرینہ خوابوں کو تعبیر دیتے ہیں ،  ایسے معاشی بجٹ انہی معماروں کو دن میں تارے دکھا دیتے ہیں ۔۔سالہاسال سے رئیل اسٹیٹ کے کہنہ مشق ماہرین اس کوشش میں ہیں کہ یہاں سرمایہ کارانہ سرگرمیاں رکنے نہ پائیں ، اور ایسی فضا سازگار کی جائے کہ بیرون ملکی سرمایہ کاروں کا بھی اعتماد بحال کیاجائے ۔۔لیکن اس معاشی بجٹ کے بعد صحتمندانہ سرمایہ کاری کاتوازن بھی یقینی طورپہ متاثر ہونے کا امکان ہے ۔اور جب پراپرٹی سے وابستہ کاروباری افراداس سے متاثر ہوں گےتواس کے اثرات کی لپیٹ میں صارف بھی آئے گا۔ گھر بنانے کاعمل اگر پہلے مشکل تھاتوموجودہ حالات میں مشکل ترہوگیا ہے۔

تاجر تنظیموں کا بجٹ کی تیاری میں اہم کردارہواکرتا ہے ۔۔لیکن اس بار ان تنظیموں کی ناخوشی بھی صاف ظاہر ہے ۔۔کیونکہ رئیل اسٹیٹ پر 45 فیصد ٹیکس بہرحال ایک بلڈوزرکی طرح آن کھڑا ہواہے۔اس وقت ملک میں ٹوٹل انفرادی ٹیکس فائلرز کی تعداد ساڑھے 30 لاکھ بتائی جارہی ہے۔ ٹیکسز کی شرح میں اس قدراضافہ معیشت کوامتحان میں ڈالنے کے مترادف ہے۔۔تعمیراتی صنعت صرف ایک اکائی نہیں ہے ۔۔اس کے ساتھ بیسیوں اور صنعتیں بھی جڑی ہوئی ہیں ،جن کا دارومدار ایک دوسرے پر ہے جیساکہ سیمنٹ، سریا اور ہر وہ میٹیریل تیار کرنے والاشعبہ جو ایک گھر بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ ایسی ہر صنعت براہِ راست اس سے متاثر ہونایقینی امر ہے ۔

رئیل اسٹیٹ کابراہ ِراست تعلق عوام سے ہوتاہے جوصارف ہیں۔۔جن کے لیے گھروں کی کمی کامحتاط سے محتاط اندازہ بھی لگایا جائے تو ایک کروڑ سے زیادہ گھروں کی کمی نظرآتی ہے۔۔اگرہم میانوالی میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کا ہی جائزہ لیں تویہ دیکھ کر آنکھیں کھل جاتی ہیں کہ کیسے یہاں اپنی مدد آپ کے تحت کام چل رہے ہیں۔۔یقیناً ضرورت تواس بات کی ہے کہ اس ملک میں ایک بھی ٹیکس چور نہ ہو ، ہر شخص کی جتنی آمدنی ہو،اس حساب سے وہ ضرور ٹیکس دینے والا بنے ۔۔ لیکن اس پرعملدرآمد کیلئے کیے جانے والے اقدامات بندوق کی جگہ توپ سے فائر کرنے کے مترادف بتائے جارہے ہیں،اوروہ آئی ایم ایف کی اس یقین دہانی اور توقع کے قطعی منافی ہیں کہ غریبوں کو ریلیف دیاجائے اور امیروں پر ٹیکس لگایاجائے۔ ٹیکس کی ہرممکنہ ادائیگی رئیل اسٹیٹ سے وابستہ ایماندار افراد تواسی اخلاص سےکرتے ہیں جیسے ایک تنخواہ دارآدمی اداکرتاہے۔سینکڑوں ملین کا لوکل انڈسٹری سے میٹریل لیا جاتا ہے جو کہ سب کا سب ڈیوٹی پیڈ ہوتا ہے۔۔ اور یہی حق بنتاہے کہ جتنے فٹ کنسٹرکشن کی جائے،اتنے فٹ کے حساب سے ٹیکس پیڈ اشیا لی جائیں اور وہ ٹیکس ادا کرنے والی بھی خیرسے لوکل انڈسٹری ہی ہوتی ہے۔

لیکن جیسےتصویر ہو یا آئینہ ،اس کا بس ایک ہی رخ نہیں ہوتا۔۔ ویسے ہی یہ صورتحال بھی ایک رُخی نہیں ہے ۔۔اس میں دورائے نہیں کہ رہائشی اور کمرشل پراپرٹی کی خرید و فروخت کے جوطریقہ کارپاکستان میں عمل میں لائے جاتے ہیں، وہ خاصے الجھاؤکاشکارہیں۔ اگرآپ یہاں پچھلے بلاگز کاجائزہ لیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ اے کیو ڈیویلپرز کیوں اپنے پیپرورک اور این او سی کی شفافیت پرزور دیتے ہیں۔

بلاشبہ رئیل اسٹیٹ پاکستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کیے جانے والا شعبہ ہے۔۔لیکن تعجب کی بات تویہی ہے کہ ا س انڈسٹری کے کثیر حصہ کا مکمل ڈیٹا ایف بی آرسمیت کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس شعبے میں چونکہ اکثر وبیشتر نقد رقم کی ادائیگی کی جارہی ہوتی ہے،اس لیے سرکاری محکموں کے پاس فقط وہی رسیدیں آتی ہیں جن کی قیمتیں مارکیٹ ریٹ سے بہت کم کرکےدکھائی گئی ہوتی ہیں۔۔بسااوقات توان زمینوں کی قیمتیں مارکیٹ ریٹ سے ساٹھ سے ستر فیصدتک کم ظاہر کی جاتی ہیں۔۔ اوپن فائلیں جاری کرناایک اور گمبھیر مسئلہ ہے۔آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ کسی زمین کی کم سے کم مالیت کا تعین برٹش راج کے زمانے کے ایکٹ کے تحت ہوتا آیاہے۔۔حتیٰ کہ وفاقی دارالحکومت میں سنہ2020 سے پہلے ایسا کوئی قانون سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ایف بی آر نےاگرچہ 2019 میں وہاں کے مختلف سیکٹرز اوررہائشی سوسائٹیوں میں زمین و جائیداد کی خرید و فروخت پر ٹیکس کا ایک پیمانہ ضروربنایا ،مگر وفاقی دارالحکومت میں بھی  پراپرٹی ٹیکس کی وصولی پوری طرح ممکن نہیں بنائی جاسکی۔اسی سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ ملک کے باقی علاقوں میں ٹیکس نادہندگی کی صورت حال کتنی گمبھیر ہوگی۔

ضرورت اس بات کی ہے محض الزام تراشیوں اور گنڈاسہ بردار اقدامات کی بجائے معیشت کو دستاویزی شکل میں لے کر آیا جائے۔۔اور اس کے لیے تحمل اور نظم وضبط ہر سطح پر ضروری ہے ۔۔اس حوالے سے ملکی سطح پہ شعور بیدار کرنا زبردستی ڈنڈا ڈولی اور صنعتوں پر بلڈوزرچلانے سے زیادہ ضروری ہے ۔معاشی استحکام اورسیاسی استحکام ایک سکے کے دوپہلوہیں،ہمیں یہ نہیں بھولناچاہیے کہ جب ملک میں غیر یقینی صورتحال ہو تو سرمایہ کاری کاعمل بھی کھٹائی میں پڑجاتاہے۔۔صاف ظاہر ہے کہ ٹیکس کی شرح کوبڑھانے سے صورتحال بہتر نہیں ہوگی، کم کرنے سے یقیناً ہوسکتی ہے۔۔ ٹیکس نیٹ کا دائرہ کار اگر پانچ گنا بڑھ جائےتو ٹیکس وصولی کی شرح میں دو گنا اضافہ ممکن ہوسکتاہے۔۔پراپرٹی ٹیکس کی شرح کاکم ہوناملکی معیشت کے عین مفاد میں ہے ،خاص طورپہ  کرایہ دارانہ اور کمرشل پراپرٹی پر جب عائدکردہ ٹیکس کی شرح گھٹے گی تو رشوت خور مافیا کی بجائے یقینی طورپہ لوگ پورا ٹیکس دینے کو ترجیح دیں گے۔۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف اسی اقدام سے پراپرٹی ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدن میں تین گنا اضافہ ممکن ہوگا۔رئیل اسٹیٹ انڈسٹری میں فائلوں کے ذریعے جو کاروباری سرگرمیاں ہوتی ہیں، اس میں بینکوں کا سٹامپ پیپر استعمال ہوتا ہے، جو ٹیکس نادہندگان کو ٹریک کرنے کا زیادہ موثر ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ سالانہ ریکارڈمیں لائے جانے والے ڈیٹا کو اگرتمام صوبوں کے ساتھ شیئر کیاجائے،اور کراس چیک کروالیاجائے تو ٹیکس وصولی کی شرح میں بغیر عام آدمی پہ فاضل ٹیکسوں کابوجھ ڈالے کئی گنااضافہ ممکن ہوسکتاہے اور ملکی معیشت بھی دیکھتے ہی دیکھتے خوشحالی کی راہ پہ گامزن ہوسکتی ہے ۔۔بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیکس نادہندگان اور پالیسی بنانے والے ادارے مخلصانہ طور پر معیشت اور صنعتوں کے استحکام کے لیے سوچناشروع کردیں ۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top