اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ موسمیاتی بحران انسانیت کو درپیش اہم ترین مسئلہ ہے۔ متعدد اداروں کی جاری کردہ معلومات کی بنیاد پر تیار کردہ موسمیاتی رپورٹ سے تصدیق ہوجاتی ہے کہ ہر آنے والاسال اب تک کا گرم ترین سال ثابت ہوتا رہا ہے۔ یہ بات انتہائی قابلِ افسوس ہے کہ پاکستان کا شمار ان دس ملکوں میں ہوتا ہے جو عالمی حدّت میں اضافے کے اثرات کی براہِ راست زد میں ہیں۔ کئی تحقیقی مقالے بتاتے ہیں کہ گرمی کی ایسی شدت جسمانی صحت کے لیے اور دیگر معاملات کے لیے شدید مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ لُو کی وجہ سے طلبا کی سیکھنے اور دفتری ملازمین کی کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے،یہاں تک فیملی پلاننگ کا عمل بھی اس سے متاثر ہوسکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان کے زرخیز زمین رکھنے والے اور زرعی پیداوار کے لیے مشہورشہروں کو بھی موسمیاتی تبدیلی اور انسانی بے احتیاطیوں کی وجہ سے جنگلات کی کٹائی اور ماحولیاتی تنزلی کا سامنا ہے۔ اس سے زرعی پیداوار میں کمی، ہوا کی آلودگی میں اضافہ، اور کمیونٹیز کے لیے معیارِزندگی میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔۔اور لوگ دن بہ دن بڑھتی ہوئی گرمی کی شدت اورخشک سالی سے متاثر ہورہے ہیں۔ بلاشبہ موسم اور موسمیاتی شدت ہی نقل مکانی، غذائی عدم تحفظ، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور طبی مسائل کی بنیادی وجوہات رہے ہیں یا پھران میں مزید بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔ چنانچہ خطے کو سرسبز و شاداب بنانے اور ماحولیاتی نظام کو بحال کرنے کے لیے شجر کاری کو مرکزی حیثیت حاصل ہے،اور اس پر عمل درآمدازحد ضروری ہوگیا ہے۔
اس وقت ضرورت اس عمل کی ہے کہ شہر کے گردونواح میں ہزاروں کی تعداد میں درخت لگائے جا ئیں، جس کے ذریعے نہ صرف شہر کاماحول بہتر ہوگا، بلکہ یہاں آباد اور آباد ہونے کی خواہش مند کمیونٹیوں کے لیے بھی متعدد فوائد حاصل ہوں گے۔
آئیے ‘ اب ہم درختوں کے ماحول اورلوگوں کے رہن سہن پر اثرات،اور شجرکاری کے معاشی فوائد کا ذرا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔
ماحولیاتی فوائد:
شجر کاری کا سب سے اہم پہلو تو یہ ہے کہ درخت کسی بھی خطے آب وہوا اورماحول کے لیے بہت سے فوائد فراہم کرتے ہیں، بشمول ہوا کی صفائی، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنا، اور آبی وسائل کو محفوظ رکھنا۔چنانچہ یہ کہناغلط نہیں ہوگاکہ درخت زمین پر زندگی کا ذریعہ ہیں ۔صرف نصابی کتابوں میں یہ پڑھ لیناکافی نہیں کہ درخت آکسیجن بناتے ہیں،یاسبزہ اور گھاس دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں، اب ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان مظاہرِ فطرت کا انسان سے رشتہ کیاہے، یہ درخت صرف فرنیچر بنانے کے لیے تو نہیں ہوتے۔انسان نے جب ہوش سنبھالاتووہ اس جنگل کاحصہ تھا‘درخت جس کے بنیادی ستون تھے،ان کے سائے میں رہتے ہوئے ہی اس نے وہ پایاجو پایا، اس لیے ان تمام جدیدسہولیات کے ساتھ انسان پہ دنیاکے ایکو سسٹم (نظامِ حیاتیات) کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ نئی پلانٹیشن ہوگی ،درخت لگیں گے تو وہ ہوا کی آلودگی کو کم کرنے، درجہ حرارت کو کم کرنے، اور بارش اور برف کی مقدار کو بڑھانے میں مدد کر یں گے۔ یہ درخت آبی وسائل کو محفوظ رکھنے اور زمین کے کٹاؤ کو روکنے میں بھی بخوبی کارگر ثابت ہوں گے۔
معاشی اور زرعی فوائد:
درخت نہ صرف حسنِ فطرت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں بلکہ کسی بھی خطے کو گوناگوں معاشی فوائد بھی فراہم کرتے ہیں، بشمول زرعی پیداوار میں اضافہ، سیاحت کو فروغ دینا، اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا۔یہ درخت کسی بھی علاقے کی زرعی پیداوار کو بڑھا سکتے ہیں، کیونکہ وہ ہوا اور پانی کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ ہوامیں موجود نقصان دہ گیسوں کو جذب کرتے ہیں اور زمین کے درجہ حرارت کو کم رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔۔ یہ درخت کسی بھی خطے میں سیاحت کو بھی فروغ دیتے ہیں، کیونکہ شہر صرف عمارتوں اور صنعت و حرفت سے قابلِ دید نہیں ہوجاتے بلکہ علاقے کا حسنِ فطرت اسےزائرین کے لیے زیادہ پرکشش بناتا ہے ،اور اس حسنِ فطرت کاحصول بغیرشجرکاری کیے ممکن ہی نہیں۔ رہی بات شہریوں کے لیے معاشی فوائدکی ‘ تو، پودے اوردرخت لگانا اوران کی دیکھ بھال کرنا اپنے آپ میں ایک ہنر بھی ہےاورہنر روزگارکی سیڑھی ہے۔ سایہ دار درخت اور پھول پودے انسان کی ضرورت ہیں‘اور ضرورتیں خودروزگار کے مواقع پیدا کرلیتی ہیں۔
سماجی فوائد:
جہاں ہم شجر کاری کے فطری اور معاشی پہلوؤں کی بات کررہے ہیں ، وہیں ہم اس حقیقت کو بھی نظر اندازنہیں کرسکتے کہ درخت کسی بھی علاقے کے باشندوں کو کئی طرح کے سماجی فوائد بھی فراہم کرتے ہیں، بشمول تفریحی مواقع فراہم کرنا، کمیونٹیوں کو متحد کرنا، اور صحت اور تندرستی کو بہتر بنانا۔ جہاں درخت ہوتے ہیں تو وہ عوام کو بہت سے تفریحی مواقع فراہم کرتے ہیں، کیونکہ یہ درخت ہی ہیں جو پارکس اور کھلے سپیس ز میں سایہ اور گوشہ عافیت فراہم کرتے ہیں۔ یہ درخت کمیونٹیوں میں اتحاد و اتفاق بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں، کیونکہ شجرکاری کاعمل شروع ہوتاہے تو لوگوں میں پودوں اور درختوں کی دیکھ بھال کا شعور پیدا ہوتا ہے،اوروہ جنگلات کی کٹائی سے ہونے والے نقصان کی تلافی کے لیے اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ اس طرح پودوں اور درختوں کی بدولت شہریوں کے لیے صحت اور تندرستی کی فضا سازگار ہونے لگتی ہے، کیونکہ درخت اور پودے پھل پھول دینے والے ہوں یا سایہ دار، وہ ہوا کی آلودگی کو کم توکرتے ہی ہیں، لوگوں کو آرام کرنے اور فطرت سے جڑنے کے لیے بھی جگہ فراہم کرتے ہیں۔ اور انسانی نفسیات پر مثبت اثر ڈالتے ہیں۔
جدید تحقیق نے تویہ تک ثابت کیا ہے کہ اگر بچے درختوں والے ماحول میں وقت گزارتے ہیں تو ان کی ابتدائی نشوونما یا ارلی چائلڈ ہڈ ڈویلپمنٹ میں بھی افاقہ ہوتا ہے۔سرسبز مقامات پربچوں کی پرورش کی جائے تویہ قدرتی ماحول نشوونما کے ساتھ ساتھ ان میں توجہ ارتکاز اور بہتر یادداشت کی بھی تشکیل کرتاہے۔ ایسے بچے تعلیمی لحاظ سے بھی بہترہوتے ہیں۔اوران میں موڈ اور رویے کے مسائل بھی کم کم ہوتے ہیں۔
ہم سب کا کردار:
اوپر بیان کیے گئے نکات کی روشنی میں ہم یہ بخوبی جان چکے ہیں کہ کس طرح درختوں کو ماحول، معیشت، اور معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔کسی بھی خطے کی اصل کامیابی اس کی وہی نیک نیتی اورجامع حکمت عملی ہے ‘ جوپلانٹیشن اور شجر کاری کو کمیونٹی کی ترقی اور پائیدارگروتھ کے لیے ایک کلیدی عنصر کے طور پر دیکھتی ہے۔ دنیاکے ترقی یافتہ ممالک میں اس حوالے سے جوکوششیں کی جارہی ہیں‘ وہ اس حقیقت کا بیّن ثبوت ہیں کہ قابل تجدید توانائی کے حصول کی صلاحیت بڑھانا اب بھی ممکن ہے۔۔ تاہم سرکاری محکمہ جنگلات کے علاوہ، ہر فرد کو رضاکارانہ طور پر شجرکاری میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بڑھتی تپش میں موسمی انحطاط اور فضائی آلودگی سے بچا جا سکے اورشہروں کے ماحول کو بہتر سے بہتربنایا جا سکے۔ ہم سب اپنے گھروں، اسکولوں، اور دفتروں میں درخت لگا کربھی اس خوشگوار تبدیلی کاحصہ بن سکتے ہیں۔ خطے کو آب وہوا میں تبدیلی سے آنے والی تباہی سے بچانے کے لیے ہمیں اپنے رہن سہن میں بڑی تبدیلیاں لانی ہوں گی ۔
چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ نیک نیتی سے ایسی عمارتوں اور گھروں کی تعمیر کی جائے،جن میں رنیوایبل انرجی یا قابل تجدید توانائی پر زیادہ انحصار کیاجائے ، توانائی کی کھپت کم سے کم ہو تاکہ کچرہ کم پیدا ہواور وہ ماحول کی آلودگی کاباعث کم سے کم بنے۔ہمیں شجرکاری کو ایک قومی تحریک بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے مستقبل کے لیے ایک سرسبز اور شاداب پاکستان کا خواب پورا کر سکیں۔